مندرجات کا رخ کریں

ابو محمد ابدال

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو محمد ابدال
معلومات شخصیت
پیدائش ستمبر942ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چشت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 جولا‎ئی 1020ء (77–78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چشت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت افغانستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ ابو اسحاق شامی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص خواجہ ابو یوسف ابن سمنان   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ صوفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں


آپ کا لقب ولی الدین یا ناصح الدین تھا آپ ابو احمد ابدال چشتی کے فرزند ارجمند، مرید اور خلیفہ تھے۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ ابو احمد ابدال چشتی کو رسول کائنات ﷺنے اس فرزند ارجمند کی بشارت دی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اے ابو احمد خدا تمھیں ایک بیٹا دے گا جس کا نام میرے نام پر محمد رکھنا۔ چوبیس سال کی عمر میں آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوا تو آپ ان کے مصلیٰ پر جلوہ افروز ہوئے کئی بار کنویں میں لٹک کر نماز معکوس ادا کرتے۔ سات دن بعد ایک کجھور اور پانی کے ایک گھونٹ سے افطار کرتے۔ چہرے پر ایسا نور تھا کہ دیکھنے والاگرویدہ ہوجایا کرتا تھا۔ آپ کے ہاتھ کثرت سے غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔
ایک مرتبہ بادشاہ دیناروں کی تھیلی لے کر حاضر ہوا جسے آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ہمارے بزرگوں کا یہ طریقہ نہیں جب بادشاہ نے اصرار کیا تو آپ نے دریا کی طرف منہ کیا ہزاروں مچھلیاں منہ میں دینار لیے کھڑی تھیں آپ نے بادشاہ سے فرمایا جس کے پاس اس قدر خزانہ غیبیہ موجودہوں وہ تیری اس تھیلی کی کیا قدر کریگا
ستر سال کی عمر میں اشارہ غیبی سے سلطان محمود غزنوی کے ساتھ سومنات کے جہاد میں شریک ہوئے چند خدام بھی ساتھ تھے[1] آپ کے تین خلفاء تھے ایک خواجہ ابو یوسف دوسرے خواجہ محمد کاکو اور تیسرے خواجہ استاد مروان یہ تینوں حضرات آپ کی وفات کے بعد مسند ہدایت و ارشاد پر بیٹھے۔ سیرالاقطاب کے مصنف نے آپ کی تاریخ وفات چودہ ربیع الاول411ھ بتائی ہے جبکہ شہزادہ دارا شکوہ قادری نے سفینۃ الاولیاء میں یکم ماہ رجب 411ھ لکھی ہے۔[2]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 156ناشر مکتبہ الشیخ کراچی
  2. خزینۃ الاصفیاءجلد دوم:صفحہ 42 تا 46 مفتی غلام سرور لاہوری مکتبہ نبویہ لاہور