ایل بی ڈبلیو
ایل بی ڈبلیو یا ؛ لفظی ترجمہ وکٹ کے آگے ٹانگ) یہ اصطلاح کرکٹ کے کھیل میں استعمال کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بلے باز کو آوٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب فیلڈنگ سائڈ کی جانب سے اس گیند پر اپیل کی جائے جو بلے باز کو نا لگنے کی صورت میں وکٹ کو لگ سکتی تھی(سوائے وہ گیند جو ہاتھوں کو چھوئے) پھر امپائر کا فیصلہ کئی چیزوں پر انحصار کرتا ہے جیسے گیند کہاں لگا ہے، آیا گیند وکٹ کی سیدھ میں تھی یا نہیں اور آیا بلے باز گیند کو مارنے کی کوشش ک رہا تھا۔
لیگ بیفور وکٹ کی قانون کرکٹ میں 1774ء میں سامنے آئی جس کی وجہ بلے باز کا پیڈ (pads) کے ذریعے گیند کو وکٹوں سے لگنے سے بچانا تھا۔ کئی سالوں تک اس میں ترامیم اور بحث ہوتی رہی کہ گیند کوکہاں گرنا چاہیے نیز بلے باز کے خود بچانے کے ارادوں کو کیسے روکا جائے۔ 1839ء میں اسی قانون کی ایک قسم تقریباً 100 سال تک لاگو رہی۔ لیکن انیسویں صدی کے بعد بلے باز پیڈ پلے (ٹانگوں سے کھیلنا) میں ماہر ہو گئے اس طرح وہ خود کو آوٹ ہونے سے بچانے لگے۔ ان ناکام تجربوں کے بعد 1935ء میں اس قانون میں اضافہ کیا گیا جس کی رو سے اگر بال آف سٹمپ (off stump) سے باہر گر کر بھی بلے باز کے پیڈ کو لگتی ہے تو تب بھی وہ آوٹ تصور ہوگا۔ ناقدین کے نزدیک یہ فیصلہ کھیل کو غیر پرکشش بنا گیا تھا کیونکہ اس سے لیگ سپنر بالنگ کو خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔
بہت سے مباحثوں اور تجربوں کے بعد اس قانون میں 1972ء میں دوبارہ رد و بدل کی گئی۔ اس طریقے میں پیڈ پلے کی گنجائش کو کم کرنے کی کوشش کی گئی اور بعض حالات میں اگر گیند کو بلے سے مارنے کوشش نا کرے تو اسے آوٹ قرار دیا جاتا۔ 1990ء میں ٹی وی اور بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے عام ہونے کے بعد ایل بی ڈبلیو کے چانسس بھی بڑھ گئے۔ اس کے باوجود آج بھی اس کے استعمالات متنازع فیہ ہیں۔
1995ء میں کرکٹ قوانین کے متعلق کیے گئے سروے میں گیرالڈ بروڈگرب کہتے ہیں"کسی بھی آوٹ کے طریقے نے اتنے تنازع کھڑے نہیں کیے جتنی کہ ایل بی ڈبلیو نے"[1]۔ اس قانون کی پیچیدگی نے عام عوام میں اسے بڑے پیمانے پر ناقابل فہم بنادیا ہے جس کی وجہ سے یہ تماشائیوں ،منتظمین اور مبصرین کے نزدیک متنازع ثابت ہوا ہے؛بعض اوقات ایل بی ڈبلیو نے ہجوم میں بھی بے چینی پیدا کی ہے۔ اعداد شمار بتاتے ہیں کہ بلے باز کے ٹیسٹ میچ میں ایل بی ڈبلیو ہونے کی گنجائش دو باتوں پر منحصر ہے ایک مقام پر اوردوسری اس پر کہ کون سی ٹیم کھیل رہی ہے۔
تعریف
[ترمیم]موجودہ ایل بی ڈبلیو کا قانون قوانین کرکٹ کی 36 ویں شق ہے جسے میرلی بون کرکٹ کلب (ایم سی سی) نے لکھا ہے[notes 1][3]بلے باز کو اس حساب سے آوٹ کرنے کے لیے سب سے پہلے فیلڈنگ سائڈ کا امپائر کو اپیل کرنا ضروری ہے۔[4] جس بلے باز کیخلاف استداء کی جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ گیند یا تو وکٹوں کی سیدھ میں گری ہو۔[5]|group=notes}} یا آف سٹمپ کی سیدھ گری ہو[notes 2]۔ پھر گیند کوبلے پر لگنے سے قبل بلے باز کے جسم پر لگنا ضروری ہے اور جسم پر نا لگنے کی صورت میں وکٹ کو لگنے کا خدشہ ہونا چاہیے۔[7]|group=notes}}اگر بلے باز گیند کو مارنے کی کوشش نا کرے اور گیند آف سٹمپ کے باہر گرنے کے باوجوداسے لگے اور گیند وکٹ کی سیدھ میں ہو تو تب بھی اسے آوٹ دیا جا سکتا ہے۔ امپائر کو گیند کے سیدھ کا دھیان رکھنا چاہیے بھلے ہی یہ گیند سٹمپ کو لگنے سے قبل اچھلے۔ لیکن اگر گیند نو بال (غیر قانونی گیند) ہو جائے تو اس صورت میں امپائر کسی صورت آوٹ دینے کا مجاز نہیں۔[3]
بلے باز کو گیند ٹانگوں میں نا لگنے کی صورت میں بھی آوٹ دیا جا سکتا ہے ؛باالفرض گیند وکٹ کی سیدھ میں بھلے کی بلے باز کے سر میں لگی ہو۔ لیکن اگر گیند لیگ سائیڈ کی سیدھ میں ہو تو اسے آوٹ نہیں دیا جا سکتا[notes 3] حتی کہ گیند کہ وکٹ سے ٹکرانے کا امکان ہی کیوں نہ ہو۔[8] اسی طرح اگر کوئی بلے باز گیند کو مارنے کی کوشش کرتا ہو اور گیند آف سٹمپ سے باہر گرے تب اسے آوٹ نہیں دیا جا سکتا۔[9] لیکن بعض اوقات بلے باز کی صورت ایسی ہوتی ہے کہ یہ اس کے لیگ سائڈ یا آف سائڈ کا فیصلہ کرنا مبہم ہوتا ہے جیسے ریورس سوئپ یا سوئچ ہٹ شاٹ کھیلتے وقت ،ایسی صورت میں امپائر منظر کے لحاظ سے فیصلہ کرتا ہے۔ قانون کے مطابق گیند باز کی دوڑتے ہی بلے باز کے مقام سے آف سائڈ کا پتا لگایا جاتا ہے۔[3][10][11]
بیرونی تصویر | |
---|---|
بی بی سی کے پاس موجود متحرک تصاویرجو ایل بی ڈبلیو کے قوانین سمجھاتے ہیں۔ |
ایم سی سی کی امپائروں کو دی گئی ہدایات کے مطابق امپائر کو ایل بی ڈبلیو دیتے وقت جن باتوں کا دھیان رکھنا چاہیے وہ یہ ہیں، گیند کس زاوئے سے آ رہی ہے آیا گیند ہوا میں اپن رخ (سوئنگ) بدل رہی ہے یا نہیں۔ اسے بلے باز اور وکٹ کے درمیان موجود فاصلے کا دھیان اور گیند کی اونچائی پیڈ کولگتے وقت کیا تھی آیا گیندکا وکٹوں سے اوپر جانے کا امکان تھا یا اسے لگنے کا۔ ان باتوں کو دیکھتے ہوئے امپائر آوٹ ہونے کا اندازہ کر کے آوٹ یا ناٹ آوٹ کا فیصلہ دیتا ہے۔[12] ایم سی سی کے مطابق اس بات کا فیصلہ کرنا اس وقت آسان ہوتا ہے جب گیند بلے باز کو لگنے سے قبل ٹپکا نا کھائے لیکن اگر گیند ٹپا کھائے اور بہت تیزی سے بلے باز سے ٹکرائے تو اس کا فیصلہ دینا مشکل ہوتا ہے۔[12]
قانون کی تکمیل
[ترمیم]آغاز
[ترمیم]کرکٹ قوانین کی سب سے پہلی لکھی حالت 1744 کی تاریخ ء تک جاتی ہے۔،[13]جس میں ایل بی ڈبلیو ضوابط تحریر نہیں ہیں۔ ابتدا میں انگریز بلے بازوں کے بلے ترچھے ہوا کرتے تھے جس کے سبب وہ وکٹ کے بالکل سامنے کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ بہر حال 1744 کے قوانین امپائر کو اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ وہ وکٹ کے سامنے "غیر منصفانہ" طور پرکھڑے ہونے والے بلے بازوں کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکیں۔ وقت کے ساتھ بلے بھی سیدھے کیے گئے جس کی وجہ سے اب بلے باز وکٹ کے بالکل سامنے کھڑا ہو سکتا تھ[1] ا۔ اب کچھ بلے باز جان بوجھ کر گیند کو وکٹوں سے لگنے سے روکنے لگے۔ اس پر مصنفین نے قانون پر تنقید کی اور پھر اس میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا گیا کہ اگر بلے باز جان بوجھ کر گیندکو ٹانگ سے روکنے کی کوشش کرے تب اسے آوٹ دیا جا سکتا ہے۔[1] لیکن مصنفین نے یہ بات نوٹ کی کہ بعض امپائر بلے باز کے ارادوں کو صحیح بھانپے بنا ہی غلط فیصلے دیتے ہیں[14]پھر 1788 کی ترمیم میں یہ بات لکھی گئی کہ بلے باز کی نیت کو دیکھے بنا ہی اس صورت میں اسے آوٹ دیا جا سکے گا بشرط گیند وکٹ کی سیدھ میں گرے۔ 1839 میں اس میں مزید اضافہ ہوا جب اس میں کہا گیا کہ" گیند کو ضرور دونوں وکٹوں کے بالکل درمیان میں گرنا چاہیے "۔[14] اس قانو ن پر اس وقت اختلاف ہوا جب دو معروف امپائر کے درمیان اس بات پر اختلاف ہوا کہ آیا گیند کو بالر اور وکٹ کی سیدھ میں گرنا چاہیے یا گیند کو وکٹوں کے درمیان والی لائن میں گرنا چاہیے۔ بعد میں یعنی سن 1839 میں ایم سی سی نے فیصلہ کیا کہ موخر الذکر یعنی وکٹوں کے درمیان گیند گرنے کی صورت میں اور وکٹ پر لگنے کے امکان کو دیکھتے ہوئے آوٹ کا فیصلہ کیا جانا چاہیے۔[notes 4][14]
تنازعات اور اصلاحی کوششیں
[ترمیم]اس قانون کو بدلنے کی کئی مہم چلیں لیکن 1839 تا 1937 تک اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئیں۔1863 میں دی گئی ایک تجویز کو رد کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ایک بلے باز کے جسم کے کسی بھی حصے پر گیند لگنے کی صورت میں آوٹ دیا جائے بھلے گیند کہیں بھی گرے اور بھلے ہی اس گیند کا وکٹ کو لگنے کا امکان ہو یا نہیں[14]۔ ایل بی ڈبلیو کے حوالے سے کئی شکایت آتی رہی ہیں لیکن اس میں اس وقت کمی آئی جب ایل بی ڈبلیو کے ذریعے آوٹ ہونے والوں کی تعداد 1880 میں کاونٹی کرکٹ میں بڑھنے لگی۔[14] پیڈ کا استعمال بلے کی ٹانگ کی حفاظت کے لیے ہے لہذا کسی دیگر استعمال کو غلط تصور کیا جاتا تھا اور کچھ نئے بلے باز تو اس کا استعمال ہی نہیں کرتے تھے۔ لیکن کرکٹ میں مقابلے اور پیچیدگی کا رجہان اس وقت بڑھنے لگا جب بلے باز پیڈ کو دفاع کے طور پر استعمال کرنے لگے یعنی گیند بلے پر نا لگنے کی صورت میں یہ وکٹ کی بجائے پیڈ سے ٹکراتی تھی یوں وہ آوٹ ہونے سے بچ جاتے۔ کچھ بلے باز تو اس طریقے کو مزید آگے لے گئے یہ بلے باز ان گیندوں کو جس پر رن بنانا ممکن نا ہوتا ان گیندوں کے سامنے اپنے پیڈ کردیتے اور اسے کھیلنے کی کوشش ہی نا کرتے۔آرتھر شروبری پہلے معروف کھلاڑی تھے جنھوں نے اس طریقے کی ابتدا کی اور ان کی پیروی میں دیگر بلے باز بھی ان کی نقل کرنے لگے۔ اس طریقے پر تنقید اس وقت انتہا پر پہنچی جب کرکٹ پچوں کو بھی بلے بازی کے ساز گار بنایا گیا یوں بلے باز بہت زیادہ رنز بنانے لگے اور میچ کا تواز ن بہت زیادہ بگڑ گیا۔[15]
پیڈ پلے طرز کے کھیل کو روکنے کی کئی کوششیں ہوئیں۔ 1888 میں کاونٹی کرکٹ کلبوں کے ایک میٹنگ میں ایک کلب کا نمائندہ کہتا ہے "وہ بلے باز جو بلے کی بجائے اپنے جسم سے وکٹ کو بچانے کی کوشش کرتا اسے سزا دی جانی چاہیے "۔ اس اجلاس میں کہا گیا کہ وکٹ کی سیدھ میں گیند جسم پر لگنے کی صورت میں آوٹ دیا جانا چاہیے لیکن اس بات کا فیصلہ نہ ہو سکا کہ گیند وکٹوں کی سیدھ میں کہاں گرے جس پر آوٹ دیا جائے۔[16] اس طرح مزید تجاویز دی گئی ان میں سے ایک تجویز بلے باز کے غلط ارادے کا محاسبہ کرتی تھی لیکن ایم سی سی نے قوانین میں کوئی ردوبدل نہیں کی بلکہ پیڈ پلے کرنے والے بلے بازوں کی مذمت پر اکتفا کیا۔ لیکن کچھ عرصہ پیڈ پلے کا روج کم رہا لیکن جب اس میں مزید اضافہ ہوا تو ایم سی سی نے نئی مذمتی قرارداد جاری کی جس کا اثر کم ہی رہا۔
1899 میں معروف کرکٹ کھلاڑیوں نے مل کر 1888 والی تجاویز پر متفقہ طور تائید کی اور قانون تبدیلی کی بات کی؛سب نے کہا کہ وکٹ کی سیدھ میں کہیں بھی گرنے والی گیند جو جسم کو لگے اس پر بلے باز کو آوٹ دیا جائے۔ 1902 میں ایم سی سی کے ایک خاص میٹنگ میں الفرڈ لیٹلٹن نے باقاعدہ یہ تجاویز سامنے رکھیں تاکہ قانون میں تبدیلی کی جاسکیں ان کی تجاویز کی حمایت میں 259 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 188 دیے گئے اب بھی یہ ترمیم منظور نہیں ہوئیں کیونکہ کہ اصولاً قانونی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار تھی۔[17][18] اے جی سٹیل اس ترمیم سے سب سے بڑے مخالف تھے ان کی رائے تھی کہ اس ترمیم سے امپائر کو ایک مشکل کام کرنا پڑے گا لیکن بعد میں انھوں نے اپنی رائے بدل لی۔ لیٹلٹن کے بھائی رابرٹ تاحیات اس ترمیم کے لیے کوششیں کرتے رہے۔ ثبوت کے طور پر وہ وہ ایل بیڈبلیو کے ممکنہ آوٹ ہونے بڑھتی شرح سامنے رکھتے اس کے مطابق 1870 میں دو فیصد تھی جو 1890 میں 6 اور 1923 میں 12 فیصد ہو چکی تھی ان کے نزدیک اس بنیاد پر پیڈ پلے کو روکنا لازم ہو چکا تھا۔[17] ان نئے قانونی تجاویز کو 1902 میں چھوٹے کاونٹی میچوں میں استعمال کیا گیا جو ناکام دیکھی گئیں۔[17] ان مسترد تجاویز میں ایک تجویز وکٹ کے سائز کو بڑا کرنا تھا تاکہ بالر پر بلے باز کی بالادستی کو ختم کیا جاسکے۔[19]
قانون میں تبدیلی
[ترمیم]سن 1900 سے 1930 تک بلے بازوں کے رن اور ایل بی ڈبلیو کی شرح بڑھتی چلی گئی[20]۔ اسی سبب پیڈ پلے کی وجہ سے بالروں میں مایوسی بڑھنے لگی اور بلے باز حضرات آف سٹمپ کی جانب آنے والے گیندوں کو کھیلتے ہی نا تھے بلکہ آسانی سے اسے گزرنے دیتے۔ کچھ بلے باز تو اس حد سے بھی آگے بڑھ جاتے تھے یہ بلے باز آف سٹمپ سے باہر گرے گیندوں کو لات مارتے تھے -باہر نکل کر ایسا کرنے سے گیند ان کی پیڈ کو نا لگتی اور وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے وہ آوٹ نہیں ہو سکتے۔[21] اس سے منتظمین کو احساس تھا کہ یہ طریقے تفریح کے وقار کو مجروح کرتے ہیں۔[22] انگریز فاسٹ بالر ہیرالڈ لاروڈ اس دور میں لیگ سٹمپ پر تواتر سے بلے بازوں کے جسم پر گیند مارنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس نے پھر متنازع باڈی لائن حربے پیدا کیے جو انھوں نے 1932–33 کے آسٹریلوی ایشز سیریز میں بلے بازوں کے خلاف استعمال کیے۔[23] اسی تنازع کے عروج کے دور میں معروف آسٹریلوی بلے باز ڈونالڈ بریڈ مین نے 1933 میں ایم سی سی کو ایل بی ڈبلیو کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کرنے کی سفارش کی جس سے کھیل کو مزید دلچسپ بنایا جا سکتا تھا۔[24]
اس مسئلے کو دیکھتے ہوئے ایم سی سی نے بالروں کے توازن کو بحال کرنے کے لیے قانون میں کچھ ترامیم کی۔ انھوں نے 1927 میں گیند کی سائز کو کم کیا اور وکٹ کی سائز کو 1931 میں کچھ بڑھا دیا [25] لیکن کچھ خاص افاقہ نا ہوا۔[20] 1929 اور 1933 میں کچھ کاونٹی اہلکاروں نے بلے بازوں کو گیند کو پیڈ سے روکنے کی صورت میں آوٹ دے کر اس ترمیم کی جانچ کی۔[20][26] اس طرح 1935 میں تجرباتی طور پر قانون میں تبدیلی کی گئی اور کہا گیا کہ گیند آف سٹمپ سے باہر گر کر پیڈ کو ٹکرانے کی صورت میں آوٹ شمار ہو گا با الفاظ سہل گیند اپنا رخ بدل کر کہیں بھی گرے اور اچھلتے ہوئے بلے باز کے پیڈ سے ٹکرائے تو اسے آوٹ دیا جائے گا۔ لیکن اب بھی شرط رکھی گئی کہ یہ گیند وکٹ کی سیدھ میں گرنی چاہیے۔ اس وقت جب امپائر آوٹ کے فیصلے سے سکورر کو آگاہ کرتا تو وہ بورڈ پر یوں لکھتا تھا "(lbw n)"۔[20]
اس تبدیلی کی کئی نامی بلے بازوں نے مخالفت کی بشمول پیشہ ور بلے باز ہربرٹ سٹکلف جو پیڈ پلے طریقے کے وکیل کہلاتے تھے اور مخالفت میں غیر پیشہ ور کھلاڑی جیسے ارول ہولمز اور بوب وایٹ بھی شامل تھے۔ وسڈن کے کرکٹ کھلاڑی المینک نے یہ بات نوٹ کی کہ ان تینوں حضرات نے 1935 کے دوران اپنی بلے بازی کے ریکارڈ بہتر کی تھی لیکن عام حالات میں وہ اتنے اچھے بلے باز نا تھے۔ اسی دور میں بہت کم ڈرا میچ ہوتے تھے۔[27] اور اس یعنی 1935 کے دور میں ایل بی ڈبلیو کی شرح بڑھنے لگی تھے[20] اور 1،560 فرسٹ کلاس میچوں میں 483 آوٹ اس ترمیم کے سبب دیے گئے۔ وسڈن نے اس تجربے کو کامیاب پایا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بہت سے بلے بازوں نے اپنی ذہنیت بدل دی ہے،[28] بلے باز اس تبدیلی کے عادی ہو گئے،[20] آسٹریلوی کرکٹ حکام اس تبدیلی کے کچھ عرصہ بعد قائل ہوئے اور انھوں نے اسے یکدم فرسٹ کلاس کرکٹ میں لاگو کرنے سے گریز کیا [29] بحر کیف 1937 میں یہ ترمیم کرکٹ کے قانون کا حصہ بن گیا۔[20]
گیرالڈ بروڈدرب کی سروے اور قانون کی تاریخ کے مطابق اس تبدیلی نے کرکٹ کو مزید پر تجسس اور پرجوش بنا دیا لیکن مزید قانونی تبدیلی دوسری جنگ عظیم کے باعث سامنے نا آسکیں۔ جنگ کے خاتمے پر سن 1946 میں کرکٹ دوبارہ شروع ہوئی تب بلے باز مشق کو بھول چکے تھے اور اسی دور میں اوف سپن اور انسوئنگ بالروں کی دھاک بیٹھنے لگی۔[20] کرکٹ مورخ دیریک برلی کا خیال ہے کہ یہ بالر الیک بیدسر کی نقل کرتے تھے جو انسوئنگ بالنگ کرتے تھے اور جنگ عظیم دوم کے فورا بعد بہت کامیاب ٹھہرے لیکن ان کا خیال ہے کہ کرکٹ اس سبب سے دیکھنے والوں کے لیے غیر پر جوش ہو گئی تھی۔ ایل بی ڈبلیو کی ترمیم شدہ قانون نے ایسے بالروں کی مزید حوصلہ افزائی کی تھی۔[30] اس ترمیم کے سبب لکھاریوں اور کرکٹ کھلاڑیوں کے مابین بحث ہوتی رہی اور بعض سابق کھلاڑی کہتے تھے کہ اس ترمیم کی وجہ سے بلے بازے کو خاتمہ ہو رہا رہے اور بلے باز آف سائڈ پر شارٹ کھیلتے ہی نہیں ہیں۔ 1963[22] میں دا ٹائمز میں چھپنے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ" اس قانون نے آف سپن اور سیمرز جیسی طرز بالنگ کو ایجاد دی ہے اور اسی وجہ سے دیگر بالنگ کے طریقے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ جبکہ 1930 تک ہر کاونٹی ٹیم میں ایک لیگ سپنر اور ایک لیفٹ آرم سپنر ہوتے تھے لیکن اب ایسا کم ہی نظر آتا ہے۔۔۔ آپ کسی بھی کرکٹ گراونڈ میں جائیں تو آپ کو اب صرف ایک وکٹ کیپر اور بالر حرکت کرتے ہوئے صرف دکھائی دیں گے۔۔۔ اس میں اب کم ہی شک ہے کہ یہ کھیل اب ایک تماشائی کے لیے ماضی کے مقابلے میں کم ہی دلچسپ ہے"۔[31] بہت سے ناقدین جیسے بوب ویٹ نے کہا کہ ایل بی ڈبلیو کی ترمیم کو دوبارہ 1935 والی ترمیم سے پہلی والی حالت میں بحال کیا جائے انھوں نے اپنی موت1995 تک اس کی مخالفت کی۔[31].[32] لیکن دوسری طرف 1950 میں بلے باز برڈمین نے ایم سی سی کو تجویز دی کے گیند کے آف سٹمپ کے باہر گرنے پر بھی آوٹ دی جائے۔ ایم سی سی کے 1956 اور 1957 کے مطالعات میں دیکھا گیا کہ آف سپن اور انسوئنگ بالرز لیگ سٹمپ پر فیلڈروں کا خیال کرتے ہوئے توجہ دیتے ہیں جسے دیکھتے ہوئے ایم سی سی نے قانون میں تبدیلی کرنے کی بجائے لیگ سائڈ پر فیلڈروں کی تعداد میں کمی کردی۔[21]
شارٹ نا کھیلنا
[ترمیم]1950 سے 1960 کے درمیان پچوں کے معیار میں تبدیلی آئی اس تبدیلی نے بلے بازی کو مشکل بنادیا لہذا پیڈ پلے بھی بڑھ گئی۔ ناقدین نے اب بھی اس طریقے کو "منفی اور ناانصافی" قراردیا۔[33] اس کو روکنے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں اور اس کے مقابلے میں لیگ سپن کو فروغ دیا گیا ایل بی ڈبلیو کا نیا طریقہ ایجاد کیا گیا جسے ابتدا میں آسٹریلیا پھر 1969 تا70 میں ویسٹ انڈیز میں اپنایا گیا پھر انگلینڈ میں یہ ترمیم 1970 میں لاگو کی گئی۔ اس ترمیم کے تحط وہ بال جو وکٹو ں کے درمیان گرے یا"بلے کے آف سائڈ کے باہر گرے اور امپائر کے نزدیک بلے باز اسے مارنے کی کوئی کوشش نا کرے تب بھی اسے آوٹ دیا جاسکے گا"۔[33] اس ترمیم میں بحرحال یہ شرط رکھی گئی کہ گیند کی سیدھ اس صورت میں بھی وکٹ ہونی چاہیے[33]،اس طرح یہ بھی کہا گیا کہ جو بلے باز آف سٹمپ سے باہر گری گیند کو مارنے کی کوشش تو کرے لیکن یہ پیڈ سے ٹکرائے تو اس صورت میں آوٹ نہیں دیا جائے گا۔ وسڈن کے مدیر کے مطابق اس طرح بلے باز کو رسک لینی پرتی ہے جس سے کھیل میں مزید دلچسپی پیدا ہوئی۔[34]۔ لیکن آسٹریلیا میں اس کی وجہ سے ایل بی ڈبلیو کی شرح کم ہوئی [35] اوروہاں قانون کو دوبارہ سابقہ حالت میں بحال کرنے کی بات کی گئی۔[34] اس قانون میں ایک نئی بات بھی ڈالی گئی وہ یہ تھی"اگر بلے باز آف سٹمپ پر گری گیند کو مارنے کی کوشش نا کرے اور یہ گیند بلے باز کے جسم پر کہیں بھی ٹکرائے اور یہ گیند امپائر کے نزدیک وکٹ کو بصورت دیگر وکٹ کو لگ سکتی تھی تو اسے بھی آوٹ دیا جائے گا بھلے جسم کا وہ حصہ جو گیند سے ٹکرائے دونوں وکٹوں کی سیدھ میں ہو یا نہ ہو"۔1935[34] کے ضابطہ کے لحاظ سے اس میں یہ فرق تھی کہ اس میں آف سٹمپ سے باہر گری گیند پر بھی آوٹ دی گئی تھی۔[36] اس ترمیم کو ساری دنیا میں اپنایا گیا لیکن یہ ترمیم اصلی کرکٹ قوانین میں ایم سی سی نے 1980 میں شامل کیے [37] اور 1972 سے پہلے کی بہ نسبت ایل بی ڈبلیو کی شرح بڑھ گئی۔[38] یہ قانون آج بھی مستعمل ہے۔ .[3]
ٹیکنالوجی کا اثر
[ترمیم]1993 کے بعد سے انگریزی کرکٹ میں ایل بی ڈبلیو کی شرح آہستہ آہستہ بڑھنے لگی ہے۔ مورخ ڈوگلاس ملر، کے مطابق اس شرح میں اس وقت اضافہ ہوا جب کرکٹ نشر کرنے والے ادارے ٹی وی پر ہاک آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے میچوں کو نشر کرتے۔ ملر رقم طراز ہیں"وقت کے ساتھ ساتھ جب بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی جیسے ہاک آئی کے ذریعے کھیلوں کو دیکھایا جانے لگا تو اس کی صحیح ناپ تول کو دیکھتے ہوئے ناظرین اس کے قائل ہونا شروع ہوئے۔ اپ ریپلے کے ذریعے ان باہر نکلے ٹانگوں پر لگی گیندوں کو بھی صحیح پرکھا جانے لگا جو وکٹ پر لگ سکتی تھی اور ان کا اندازہ لگانا پہلے ممکن بھی نا تھا"۔[35] وہ مزید کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی اس ثبوت نے امپائروں کو بہت سہولت فراہم کی ہے اب وہ ان بلے بازوں کو بھی جو سٹمپ سے دور کھڑے ہوتے ہیں گیند کی رخ کے اندازے سے آوٹ دے پاتے ہیں۔[39] اب عالمی مقابلوں میں ان نت نئے ٹیکنالوجی نے امپائر کے کردار کو کسی حد تک بدل دیا ہے۔ آج سپن بالروں کی ایل بی ڈبلیو کی اپیل زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔[40] بہرحال اس آن فیلڈ ٹیکنالوجی اپنے پاس تنازعات بھی رکھتی ہے بعض اسے انسانی فعل سے زیادہ صحیح سمجھتے ہیں اور بعض امپائر کو ہی صحیح فیصلہ کرنے والا مانتے ہیں۔[41]
آئی سی سی جو پوری دنیا میں کرکٹ میچوں کی ذمہ دار ہے نے 2002 میں ایل بی ڈبلیو پر بھی اپیل کا اختیار دیا یہ اپیل میدان سے باہر بیٹھے تھرڈ امپائر کے پاس جاتی تھی جو ٹی سکرین پر رپلے سے ایل بی ڈبلیو کو دیکھ کر فیصلہ کرتی لیکن یہ تجربہ کامیاب نا ہوا[42] اور آئی سی سی نے اسے رکھنے کا فیصلہ ختم کر دیا۔[42] 2006 میں اس بارے میں مزید تجربے کیے گئے [43] لیکن اب بھی حکام کے پاس بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی موجود نہیں تھے۔ 2009[44] میں عالمی کرکٹ مقابلوں میں ایمپائر ریویو سسٹم (ڈی آر ایس) کو سامنے لایاگیا اس کے تحت فیلڈنگ سائڈ اپنے اپیل تھرڈ امپائر کو بھیج سکتے تھے جو سکرین گیند کے رخ وغیر کو دیکھتی تھی۔[45] آئی سی سی کے سربراہ ڈیوڈ رچرڈسن کا اس حوالے سے کہنا تھا کے ڈی آر ایس نے امپائروں کی کارکردگی کو بہتر کیا ہے۔ 2012 میں انھوں نے کہا"امپائروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر انھوں نے کسی کو آوٹ قرار دیا اور ڈی آر ایس کے تحت وہ ناٹ آوٹ ٹھہرا تو ان کا فیصلہ درست کیا جسکتا ہے۔ اب میرا خیال ہے کہ امپائر کسی بھی کھلاڑی کو آوٹ دینے سے قبل سوچے گا ضرور۔ اگر بات ایمانداری سے کی جائے تو ڈی آر ایس نے کرکٹ کو ہماری سوچ سے زیادہ متاثر کیا ہے۔[43]
مخالفین نے بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے صحیح ہونے پر بھی شک کا اظہار کیا[46] لیکنآئی سی سی کے نزدیک تجربات نے اسے 100 فیصد درست ثابت کیا ہے۔[47] بھارتی کرکٹ بورڈ اپنے تواتر سے اپنے میچوں میں ڈی آر ایس کی مخالفت کرتی آئی ہے کیونکہ انھیں بھی بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی پر تحفظات ہیں۔[48] بھارت میں ڈی آر ایس کی جانچ پر کئی مسائل ہوئے تھے جس کی وجہ اب کی نسبت اس وقت اس ٹیکنالوجی کا زیادہ بہتر نا ہونا تھا۔ بی سی سی آئی کے نزدیک یہ ٹیکنالوجی غیر معتبر ہے اور یہ فالتو تکرار کو ہوا دے گی۔[49]
رجحانات اور تاثر
[ترمیم]2011 میں ڈوگلاس ملر کی کی گئی سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ انگلش کرکٹ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ایل بی ڈبلیو کی شرح بڑھ گئی ہے۔ 1920 میں 11 فیصد وکٹیں ایل بی ڈبلیو کی بدولت تھیں جبکہ 1930 میں یہ بڑھ کر 14 فیصد ہوگئیں۔ 1946 سے 1970 تک یہ شرح 11 فیصد تھی لیکن 2011 تک بڑھتے ہوئے 19 فیصد ہوگئیں۔ ملر کہتا ہے کہ کاونٹی کرکٹ کے کپتان زیادہ ایل بی ڈبلیو سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ان کے ایل بی ڈبلیو سے آوٹ ہونے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں اور اگر یہ بالنگ کریں تب بلے باز کو ایل بی ڈبلیو سے آوٹ کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔[50] کاونٹی کرکٹ کے کپتان بعض حالات میں امپائر کو میچ ختم کرنے کا کہتے تھے کیونکہ انھیں اس بات کا اختیار تھا یو ں پیشہ ور امپائر کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی تھی لہذا وہ غیر پیشہ ور کھلاڑیوں کے ساتھ نرم رویہ رکھنے پر مجبور ہوتے اس طرح کپتان چاہے بالنگ کریں یا بالنگ وہ امپائر پر اپنا دباؤ برقرا رکھتے۔ غیر پیشہ ور انگریز کرکٹ انتظامیہ اور سخت مزاج والے امپائر کی نوکری کو داؤ پر لگانے کی قابلیت رکھتے تھے۔[51] باقی تمام دنیا کے برعکس برصغیر میں کھیلے جانے والے کرکٹ میچوں میں ایل بی ڈبلیو کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور یہاں کے کھلاڑی باقی دنیا میں کم ہی ایل بی ڈبلیو ہتے ہیں۔ .[52]
1995ء میں کرکٹ قوانین کے متعلق کیے گئے سروے میں گیرالڈ بروڈگرب کہتے ہیں"کسی بھی آوٹ کے طریقے نے اتنے تنازع کھڑے نہیں کیے جتنی کہ ایل بی ڈبلیو نے"[1]۔ وہ ٹیم جو غیر ملک کا دورہ کرتی ہے کو ایل بی ڈبلیو کی زیادہ شکایت رہتی ہے[53]؛اسی طرح وہ امپائر جو اپنے ملک کے خلاف کھیلنے والی ٹیم کے خلاف ال بی ڈبلیو دے تو اسے بھی متعصب ہونے کے طعنے تواتر سے ملتے دیکھے گئے ہیں۔[54] مختلف مطالعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ کسی ملک کے کھلاڑی اپنے ہی ملک میں مہمان ٹیم کے مقابلے میں کم ایل بی ڈبلیو ہوتی ہے۔[54][55]،[56] فراسر کا کہنا ہے کہ ان مطالعات سے ایل بی ڈبلیو کے غلط فیصلوں کو دیکھناناممکن ہے،کیونکہ ایل بی ڈبلیو کی مختلف توضیحات ہو سکتی ہیں [57]تکنیک یا پچ کی نوعیت کا بھی فرق اس میں شامل ہو سکتا ہے۔[54] لیکن یہ مطالعات ایل بی ڈبلیو کی استداء کی کامیابی کی شرح کو دیکھے بنا مرتب کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ باتیں بھی مبہم ہیں [58] لیکن مقام اور ٹیم کے برخلاف غیر جانب دار امپائر کی جانب سے زیادہ ایل بی ڈبلیو دیے جاتے دیکھے گئے ہیں۔[52]
وہ لوگ جو کرکٹ کا ذوق نہیں رکھتے ہیں انھیں فٹ بال کے آف سائڈ ضابطے کی طرح اسے بھی سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔[59] اس کے توضیحات کی مختلف تشریحات کے سبب کئی ناقدین اسے سب سے مشکل قانون قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ اسے امپائر کی صلاحیت جانچنے کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔[53][60] اپنی کتاب کرکٹ اینڈ اٹس لا ؛دا مین ان وائٹ از آلویز رائٹ میں ڈیوڈ فراسر لکھتے ہیں کہ امپائر پر ایل بی ڈبلیو کے حوالے سے متعصب،ناقابل جیسے الزامات ایل بی ڈبلیو سے متعلق ہر بحث میں نظر آتی ہے۔ "[60] مسائل اس لیے کھڑے ہوتے ہیں کہ امپائر کو کیا ہوا ہے کو نا صرف دیکھنا پڑتا ہے بلکہ اسے کیا ہو سکتا تھا کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ اس بات میں تنازعات کھڑے ہوتے ہیں کہ گیند آف سٹمپ کے باہر کہاں گری آیا بیٹسمین نے اسے مارنے کی کوشش کی یا نہیں ۔[61] امپائروں کو اس حوالے سے کھلاڑیوں ،مبصرین اور تماشائیوں کی تنقید سننی پڑتی ہے۔[62] تاریخی طور پر ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جس میں ہجوم کی صورت میں لوگوں نے ان فیصلوں کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔[54] مثال کے طور پر 1996 میں بھارت میں کھیلے گئے ایک میچ میں محمد اظہر الدین کے ایل بی ڈبلیو آوٹ دینے پر تماشائیوں نے میدان میں چیزیں پھینکنی شروع کر دی جس سے کھیل کو درمیان میں کچھ دیر کے لیے روکنا پڑا۔[63]
حواشی
[ترمیم]- ↑ ایم سی سی نے اولین طور پر 1787 میں کرکٹ قوانین لکھنے کی ذمہ داری لی, اس کے بعد سے تما ممالک اسے کرکٹ کی معیاری اور قابل قبول قوانین گردانتے ہیں۔[2]
- ↑ دائیں ہاتھ سے کھیلنے وال بلے باز کے لیے آف سائڈ دئین جانب اور بائیں جانب سے کھیلنے والے بلے باز کے لیے بائیں جانب آف سائڈ ہوتی ہے۔[6]
- ↑ دائیں ہاتھ سے کھیلنے وال بلے باز کے لیے آف سائڈ دئین جانب اور بائیں جانب سے کھیلنے والے بلے باز کے لیے بائیں جانب آف سائڈ ہوتی ہے۔[6]
- ↑ 1839 ,کے قانون کے مطابق "... اگر بلے باز کے جسم کا کوئی حصہ جس سے گیند لگے اور بالر کے طرف سے وہ گیند بالکل وکٹوں کی سیدھ میں ہو اور بصورت دیگر وہ اسے لگ سکتی ہو".[14]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ ت Brodribb, p. 241.
- ↑ "Preface: Laws of Cricket"۔ Marylebone Cricket Club۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013
- ^ ا ب پ ت "Law 36 (Leg before wicket)"۔ Marylebone Cricket Club۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013
- ↑ "Law 27 (Appeals)"۔ Marylebone Cricket Club۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013
- ↑ "LBW: Batsman is out"۔ BBC Sport۔ 8 نومبر 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2013
- ^ ا ب Martin Williamson۔ "A glossary of cricket terms"۔ ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2012
- ↑ "Law 6 (The bat)"۔ Marylebone Cricket Club۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013
- ↑ "Ways of getting out: Leg before wicket"۔ BBC Sport۔ 26 اگست 2005۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2012
- ↑ "Not out LBW: Outside line of off stump"۔ BBC Sport۔ 8 نومبر 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2012
- ↑ Andy Bull (17 جون 2008)۔ "MCC endorses Pietersen's switch-hitting"۔ London: The Guardian۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013
- ↑ "MCC looking at switch hit options"۔ MCC۔ 10 مئی 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013
- ^ ا ب "Law 36 in Action"۔ Marylebone Cricket Club۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013
- ↑ "A brief history of cricket"۔ ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مارچ 2012
- ^ ا ب پ ت ٹ ث Brodribb, p. 242.
- ↑ Brodribb, p. 243.
- ↑ Sydney H Pardon (1899)۔ "High scoring and the law of leg-before wicket"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2012
- ^ ا ب پ Brodribb, p. 244.
- ↑ Benny Green، مدیر (1982)۔ Wisden Anthology 1900–1940۔ London: Queen Anne Press۔ صفحہ: 6۔ ISBN 0-7472-0706-2
- ↑ Birley, p. 199.
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Brodribb, p. 245.
- ^ ا ب Stephen Chalke، Derek Hodgson (2003)۔ No Coward Soul. The remarkable story of Bob Appleyard۔ Bath: Fairfield Books۔ صفحہ: 177۔ ISBN 0-9531196-9-6
- ^ ا ب Gordon Ross (1975)۔ "200 years of laws: And lbw still the most controversial"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012
- ↑ Frith, pp. 21–24.
- ↑ Frith, p. 240.
- ↑ Birley, p. 252 and n. 7, p. 371.
- ↑ E. W. Swanton، George Plumptre، John Woodcock، مدیران (1986)۔ Barclay's World of Cricket (3rd ایڈیشن)۔ London: Willow Books in association with Barclays Bank PLC۔ صفحہ: 697۔ ISBN 0-00-218193-2
- ↑ Birley, p. 252.
- ↑ "Success of the L. B. W. experiment"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 1936۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012
- ↑ Wilfrid Brookes (1936)۔ "Notes by the Editor"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012
- ↑ Birley, p. 272.
- ^ ا ب "Wider wicket experiment inconclusive"۔ The Times۔ London۔ 12 جولائی 1963۔ صفحہ: 4۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012 (رکنیت درکار)
- ↑ "Bob Wyatt (Obituary)"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 1996۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012
- ^ ا ب پ Norman Preston (1970)۔ "Notes by the Editor"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012
- ^ ا ب پ Norman Preston (1971)۔ "Notes by the Editor"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012
- ^ ا ب Miller, p. 3.
- ↑ Miller, p. 2.
- ↑ Norman Preston (1980)۔ "Notes by the Editor"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012
- ↑ Miller, pp. 2–3.
- ↑ Miller, pp. 3–4.
- ↑ George Dobell (14 فروری 2012)۔ "'DRS has affected the game more than we thought it would'"۔ ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مارچ 2012
- ↑ Fraser, pp. 121–22.
- ^ ا ب "Cricket for beginners"۔ BBC Sport۔ 23 اگست 2005۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 مارچ 2012
- ^ ا ب "Players can appeal to third umpire"۔ The Tribune۔ Chandigarh۔ 6 مئی 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 مارچ 2012
- ↑ Fraser, p. 122.
- ↑ "Official debut for enhanced review system"۔ ESPNCricinfo۔ 23 نومبر 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مارچ 2012
- ↑ Andy Wilson (25 جون 2012)۔ "India refuse to accept umpire decision review system despite new pressure"۔ The Guardian۔ London۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2013
- ↑ Mike Selvey (4 فروری 2012)۔ "DRS is a friend to nobody—for the good of the game it needs a rethink"۔ London: The Guardian۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مارچ 2012
- ↑ "BCCI a 'long way' from accepting DRS – Richardson"۔ ESPNCricinfo۔ 22 مارچ 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2013
- ↑ Nagraj Gollapudi (31 جنوری 2013)۔ "India threaten pull-out over DRS"۔ ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2013
- ↑ Miller, pp. 9–10.
- ↑ Marshall, pp. 6–7.
- ^ ا ب Ringrose, p. 911.
- ^ ا ب Rafi Nasim (27 September 2000)۔ "LBW – The cause of crisis in cricket"۔ ESPNCricinfo۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2012
- ^ ا ب پ ت Fraser, pp. 118–20.
- ↑ Crowe and Middeldorp, pp. 255–56.
- ↑ Ringrose, p. 904.
- ↑ Crowe and Middeldorp, pp. 258–61.
- ↑ Ringrose, pp. 903, 905.
- ↑ "LBW explained"۔ BBC Sport۔ 8 نومبر 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2012
- ^ ا ب Fraser, p. 116.
- ↑ Fraser, p. 117.
- ↑ Fraser, pp. 117–18.
- ↑ "Titan Cup: Third Qualifying Match. India v Australia"۔ Wisden Cricketers' Almanack۔ John Wisden & Co., reproduced by ESPNCricinfo۔ 1998۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2013
کتابیات
[ترمیم]- Derek Birley (1999)۔ A Social History of English Cricket۔ London: Aurum Press۔ ISBN 1-85410-941-3
- Gerald Brodribb (1995)۔ Next Man In: A Survey of Cricket Laws and Customs۔ London: Souvenir Press۔ ISBN 0-285-63294-9
- S. M. Crowe، Jennifer Middeldorp (1996)۔ "A Comparison of Leg Before Wicket Rates Between Australians and Their Visiting Teams for Test Cricket Series Played in Australia, 1977–94"۔ Journal of the Royal Statistical Society, Series D۔ Oxford: Blackwell۔ 45 (2): 255۔ ISSN 0039-0526۔ doi:10.2307/2988414
- David Fraser (2005)۔ Cricket and the Law: The man in white is always right۔ London: Routledge۔ ISBN 0-203-48594-7۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2016
- David Frith (2002)۔ Bodyline Autopsy. The full story of the most sensational Test cricket series: Australia v England 1932–33۔ London: Aurum Press۔ ISBN 1-85410-896-4
- Michael Marshall (1987)۔ Gentlemen and Players: Conversations with Cricketers۔ London: Grafton Books۔ ISBN 0-246-11874-1
- Douglas Miller (مارچ 2011)۔ "Leg Before Wicket" (PDF)۔ The Cricket Statistician۔ Nottingham: Association of Cricket Statisticians and Historians (153)
- Trevor J. Ringrose (اکتوبر 2006)۔ "Neutral umpires and leg before wicket decisions in test cricket"۔ Journal of the Royal Statistical Society, Series A۔ Oxford: Blackwell۔ 169 (4): 903۔ ISSN 0964-1998۔ doi:10.1111/j.1467-985X.2006.00433.x