عبرانی قوم
عبرانی قوم (عبرانی: עברים یا עבריים، تلفظ: عبریم یا عبرییم، جدید عبرانی: عوریم) ایک اصطلاح ہے جو تنک میں 32 آیات میں 34 بار آئی ہے۔[1][2][3] حالانکہ یہ اصطلاح کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، [4][5] مگر اکثر اس اصطلاح سے سامی بولنے والے قوم بنی اسرائیل مراد لی گئی ہے۔ خاص طور ما قبل مملکت اسرائیل میں جب وہ خانہ بدوش تھے۔ البتہ کچھ مقامات پر اس کے وسیع معنی بھی مراد لیے گئے ہیں جیسے فوقینی کوئی دوسرا قدیم گروہ جیسے کانسی دور کے زوال کے وقت کے شاشو۔ [6] رومی سلطنت کے دور میں یونانی عبرانیوں کو عموما یہود کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ سٹرونگ کا عبرانی لغت مراد لیتا ہے‘‘ یہود قوموں میں سے کوئی‘‘[7] اور اور بعض دفعہ وہ یہود مراد لیے جاتے ہیں جو یہودا میں رہتے تھے۔ مسیحیت کے اوائل میں یونانی اصطلاح Ἑβραῖος سے یہودی مسیحی مراد لیے جاتے تھے۔ اس کا مخالف لفظ غیر یہودی ہوتا تھا اور لفظ Ἰουδαία اس صوبہ کے لیے مستعمل تھا جہاں بیت المقدس آباد ہے۔ آرمینیائی زبان، اطالوی زبان، یونانی زبان، سربیائی زبان، بلغاری زبان، روسی زبان، رومانیائی زبان اور دیگر جدید زبانوں میں اس لفظ سے منسلک ایک بہت ہی مضبوط معنی ہوتا تھا جو یہود کے معنی دیتا تھا، اسی وجہ سے ان زبانوں میں جو مرکزی لفظ استعمال ہوتا تھا اس کا تعلق کہیں نہ کہیں "عبرانی" سے ہوتا تھا۔ [8][9][10] " عبرانی" کا ترجمہ کردی زبان میں بھی مستعمل ہے اور کبھی یہ فرانسیسی میں بھی مستعمل تھا۔ عبرانی زبان کے احیا اور عبرانی يشوب کے عروج کے بعد لفظ( "Hebrew-عبرانی") اب اس مخصوص سماج کے افراد اور اس سے منسلک تمام چیزوں کے لیے مستعمل ہے۔
لسانیات
[ترمیم]اصطلاح ( "Hebrew-عبرانی") کا تعارفی ماخذ اب بھی یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔ [11] بائبل کے لفظ Ivri (عبرانی زبان ) עברי کا مطلب ہے گذرنا یا ختم ہوجانا اور انگریزی میں اس کو Hebrew لکھا جاتا ہے، قدیم یونانی میں Ἑβραῖος اور لاطینی زبان میں Hebraeus۔ بائبل کے لفظ Ivri کی جمع Ivrim یا Ibrim ہے۔
پیدائش 10: 21 حام اور یافث کے بڑے بھائی سام سے متعلق ہے۔ اس طرح سام نوح لی پہلی اولاد ہیں اور وہی (سام) عبر کی اولاد کے باپ ہوئے۔ عبر اسرائیلیوں کے جدِ امجد تھے۔ فلج کے والد اور سام بن نوح کے پرپوتے ہیں۔
کچھ مصنفین کا ماننا ہے کہ عبری سے مراد بائبلی شخصیت عبر ہے جو سلح کے بیٹے ہے اور وہی نوح کے پرپوتے اور ابراہیم کے جد امجد ہیں۔ [12]
19ویں صدی میں دو ہزار سال قبل مسیح کے کچھ کتبے دریافت ہوئے جس میں عبيرو کا تذکرہ ملتا ہے، اس سے متعلق کئی نظریے سامنے آئے جن میں بہت سارے نظریوں کے مطابق “عبیرو” دراصل “عبرانی” ہے۔ کچھ محققین کہتے ہیں کہ “عبرانی” ان عبیرو نیم خانہ بدوشوں کا نام ہے جن کے کچھ آثار قدیم مصر کے 12 ویں اور 14 ویں صدی قبل مسیح میں ملتے ہیں کہ وہ مصر میں آباد تھے۔ [13] دوسرے محققین کا اس میں اختلاف ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق عبرانیوں کا تذکرہ مصر کے تیسرے منتقلی دور (15 ویں صدی قبل مسیح) میں بطور شاشو ہوا ہے۔ [14]
عبرانی لفظ “اسرائیل” کا متبادل
[ترمیم]تنک میں لفظ “عبرانی” عموما اسرائیلوں کے ذریعے مستعمل ہوا ہے جب وہ غیر ملکیوں سے گفتگو کرتے ہیں یا جب غیر ملکی اسرائیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ [15] واقعہ یہ ہے کہ تورات کے پاراشت لیکھ لیکھا جس کا مطلب “جاؤ” یا “نکلو” ہوتا ہے، ابراہیم کو “عبرانی ابراہیم ” کہا گیا ہے جس کے لفظی معنی “ابراہیم جو دوسرے کنارے پر کھڑا ہے ”۔
بنی اسرائیل کا تعارف یعقوب کی اولاد ہیں، جو اسحاق کے بیٹے اور ابراہیم کے پوتے ہیں۔ عبر یعقوب کے ساتویں پشت کے جد امجد ہیں۔ اور وہی کئی لوگوں کے جد امجد ہیں جن میں بشمول اسرائیل اسماعیلی، ادوم، موآب، عمون، مدین اور بنو قحطان شامل ہیں۔
یہودی دائرۃالمعارف کے مطابق اصطلاح “عبرانی” اور “اسرائیلی” عموما ایک ہی قوم کے مستعمل ہیں، بایں طور پر کہ فتح کنعان سے قبل عبرانی کہا جاتا تھا اور بعد میں اسرائیلی کہا جانے لگا۔ [16] پروفیسر نادف نعمان اور دوسرے محققین کہتے ہیں کہ لفظ عبرانی کا استعمال اسرائیلی کے لیے شاز و ناذر استعمال ہوتا ہے اور اگر کہیں استعمال ہوا بھی ہے تو وہ بہت غیر معمولی صورت حال کے لیے ہوا ہے جیسے مہاجر یا غلام۔ [17][18]
“یہود” کے متبادل کے طور پر
[ترمیم]رومن سلطنت میں ”عبرانی “ ان یہودیوں کے لیے مستعمل ہوتا تھا جو عبرانی زبان بولتے تھے۔ [19] عبرانیوں کے نام خط بھی شاید یہودی مسیحی لوگوں کے لیے لکھا گیا تھا۔ [20] کچھ جدید زبانوں میں، بشمول آرمینی زبان، یونانی زبان، اطالوی زبان، رومانیائی زبان اور متعدد سلاوی زبانیں، لفظ ”عبرانی“ یہود کے معیاری نام کی حیثیت سے اب بھی باقی ہے جبکہ دوسری زبانوں میں جہاں دونوں اصطلاحیں موجود ہیں، جدید یہودیوں کو اسرائیلی کہنا اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ [حوالہ درکار] بائیں بازو یا یہودی تہذیب کے لبرل علما عبرانی لفظ کا استعمال سیکولر یہودی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
صہیونیت
[ترمیم]19ویں صدی کے آخر میں اصطلاح ”عبرانی“ سیکولر صہیونیوں میں خاصی مقبول ہوئی؛ اس حوالے سے وہ چاہتے تھے کہ یہ اس لفظ کے ذریعے سے یہود ایک مضبوط، خود اعتماد اور سیکولر قومی گروہ بن کر ابھرے اور یہی کلاسیکل صہیونیت بھی چاہتی تھی۔ لیکن ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد یہ استعمال بند ہو گیا، ور “عبرانی ” کو “یہود” یا “اسرائیلی ” سے بدل دیا گیا۔ [21]
“یہودیت سے منتقلی” کا مترادف
[ترمیم]لفظ “عبرانی” اپنے سیکولر معنی میں ان لوگوں کے مستعمل ہوتا آیا ہے جو یہودیت سے کسی اور مذہب میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ عبرانی کاتھولک، ایک تنظیم تھی جو یہودیت سے منتقل ہو کر کاتھولک مسیحی بن گئی تھی، یہ نام الیاس فرائڈ مین، ایک کرمیلی کاتھولک راہب جس نے عبرانی کاتھولک ایسو سی اے شن کی بنیاد رکھی، نے رکھا تھا۔ اسی طرح “عبرانی مسیحی” ( یہودی مسیحی ) خود کو عبرانی نسل مانتے ہیں جبکہ میسحیت پر عمل کرتے ہیں۔ عبرانی مسحییوں کو “مسیحی یہود” یا م“کمل یہود” بھی کہا جاتا ہے۔
ریاستہائے متحدہامریکا
[ترمیم]ریاستہائےمتحدہ میں حال ہی میں اصلاحی یہودیت کے ذریعے “یہود” یا “یہودیت” سے دوری برتنے کی کوشش کی گئی۔ [حوالہ درکار] امریکا میں اصلاح کی تنظیم کا نام 2003ء سے قبل امریکی عبرانی جماعت اتحاد تھا جسے بدل کر اصلاح یہودیت اتحاد کر دیا گیا۔
عبرانی زبان کے مختلف نام
[ترمیم]عبرانی زبان کنعانی زبان کے شمال مشرقی سامی لہجے کی ایک شاخ ہے۔ قدیم انگریزی میں 11ویں صدی سے اس زبان کو “عبرانی” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا ماخذ قدیم فرانسیسی کا لفظ عبری ہے، جبکہ لاطینی میں Hebraeus اور یونانی میں Ἑβραῖος ہے۔ اس کے حروف تہجی اکدی زبان سے مستعار لیے گئے ہیں۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ [1]Strong's Exhaustive Concordance of the Bible #5680
- ↑ Step Bible
- ↑ Brown؛ Driver؛ Briggs؛ Gesenius (1952)۔ "The NAS Old Testament Hebrew Lexicon"۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ISBN:0-19-864301-2۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-09-06
- ↑ Eerdmans Dictionary of the Bible، p.567, "Hebrew, Hebrews.۔۔ A non-ethnic term"
- ↑ Collapse of the Bronze Age، p.266, quote: "Opinion has sharply swung away from the view that the Apiru were the earliest Israelites in part because Apiru was not an ethnic term nor were Apiru an ethnic group."
- ↑ The Electronic Pennsylvania Sumerian Dictionary s.v. SA-GAZ. The Assyrian Dictionary of the Oriental Institute of the University of Chicago volume H (1956) p. 13 & p. 84; volume Š/1 (1989) p. 70.
- ↑ Thayer's Lexicon
- ↑ Administrator۔ "Jewish Museum of Venice – homepage"۔ Museoebraico.it۔ 2012-08-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-08-04
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "Jewish Ghetto of Venice"۔ Ghetto.it۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-08-04
- ↑ Yann Picand؛ Dominique Dutoit۔ "translation of evreiesc in English | Romanian-English dictionary"۔ Translation.sensagent.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-08-04
- ↑ "Hebrew"۔ Encyclopædia Britannica۔ Chicago۔ 2009
{{حوالہ موسوعہ}}
: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام بدون ناشر (link) - ↑ Jewish Encyclopedia article on Eber
- ↑ entry in britannica.com
- ↑ Anson Rainey (نومبر 2008)۔ "Shasu or Habiru. Who Were the Early Israelites?"۔ Biblical Archeology Review۔ Biblical Archaeology Society۔ ج 34 شمارہ 6 (Nov/Dec)
- ↑ William David. Reyburn – Euan McG. Fry – A handbook on Genesis – New York – United Bible Societies – 1997
- ↑ Hebrews entry in Jewish Encyclopedia
- ↑ Carolyn Pressler (2009)۔ "Wives and Daughters, Bond and Free: Views of Women in the Slave Laws of Exodus 21.2-11"۔ در Bernard M. Levinson؛ Victor H. Matthews؛ Tikva Frymer-Kensky (مدیران)۔ Gender and Law in the Hebrew Bible and the Ancient Near East۔ ص 152۔ ISBN:978-0-567-54500-8
- ↑ Corrine L. Carvalho (2010)۔ Encountering Ancient Voices: A Guide to Reading the Old Testament۔ Anselm Academic۔ ص 68۔ ISBN:978-1-59982-050-7
- ↑ entry in thefreedictionary.com
- ↑ "Encyclopædia Britannica: Hebrews, Epistle to the"۔ 2018-11-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-08-01
- ↑ Yaacov Shavit (1987)۔ The New Hebrew Nation۔ Routledge۔ ص xiv۔ ISBN:0-7146-3302-X۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-08-01
بیرونی روابط
[ترمیم]ویکی ذخائر پر عبرانی قوم سے متعلق تصاویر